تعارف

 یہ ادارہ  ساہیوال شہر سے گیارہ کلو میٹرکی مصافت پر بجانب مشرق  لاہور ملتان ہائی وے پر واقع ہے۔ یہ ادارہ 41ټ31 طول، 12ټ73 طول البد  اور 175میٹر سطح سمندر سے اونچائی  پر واقع ہے۔ یوسف والا کی زمین 1925میں گورنمنٹ سیڈ فارم میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اور بعد میں اس کو محکمہ توسیع کے حوالے کر دیا گیا جہاں پر گندم ، مکئی اور کپاس کے معیاری بیجوں کی وسیع پیمانے پر تیاری کی جاتی تھی مکئی پر تحقیقاتی کام  1940 میں شروع ہوا جو کہ تقسیم برصغیر کی وجہ سے بند ہو گیا۔ مکئی پر باقاعدتحقیق کا آغاز 1953-54میں فیصل آباد میں ہوا۔ اور 1958-59 میں  یہ سیڈ فارم شعبہ تحقیق کے حوالے کر دیے گیا۔ اور  بعد میں یہ ہائبرڈ سیڈ فارم میں تبدیل ہو گیا جہاں پر مکئی کی دوغلی اقسام کہ زیادہ پیمانے پر بیج کی تیاری کی جاتی تھی۔  1968-69میں اس فارم کو ادارہ کا درجہ دے دیا گیا۔ اور اس کا نام  تحقیقاتی ادارہ برائے مکئی ، جوار باجرہ یوسف والا ساہیوال رکھا گیا۔ اور مکئی کے ساتھ جوار اور باجرے پر بھی تحقیق کا کام شروع کر دیا گیا۔

 

مکئی ، جوار اور باجرہ پاکستان کی اہم خریف فصلیں ہیں۔ جس نے ماضی میں غذائی قلت کو پورا کرنے میں بہت مدد کی ہے۔ 1970 کی دہائی سے پہلے پنجاب اور خیبر پختونخواں کے گاؤں میں مکئی  کی پیداوار کا تقریبًا 75 فیصد خوراک کے طور پر استعمال ہوتاتھا ۔ اور باقی  25 فیصد حصہ مختلف قسم کی اشیا٫ بنانے میں استعمال ہو تا  تھا۔  کچھ حصہ مر غیوں اور جانوروں کی خوراک میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اور اس طرح جوار اور باجرہ بھی پاکستان کے بارانی علاقوں میں خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن پاکستان میں مکئی کا صنعتی استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ بعد میں انسان کی غذائی عادات کی وجہ سے گندم  پہلے نمبر پر آ گئی ۔ مکئی کی فصل گندم اور چاول کے بعد  اب تیسرے  نمبر پر ہے فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے پہلے نمبر  پر ہے پنجاب میں مکئی کی سال میں دو دفعہ کامیاب کاشت کی جاتی  ہے  بہاریہ اور موسمی مکئی ۔ جوار اور باجرہ مرغیوں ، جانوروں اور پالتو پرندوں کی خوراک تک محدود ہے ۔ مکئی  کا تقریباً 60 فیصد استعمال پولٹری اور جانوروں کی خوراک میں ہوتا ہے ۔ 30  فیصد وٹ ملینگ  اور 6 فیصد خوراک کے طور پر 4 فیصد بیج اور  دوسرے استعمال میں۔

مقاصد

ادارہ کے درج ذیل اغراض و مقاصد ہیں

  • مکئی ، جوار، باجرہ کی  زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے والی دیسی اور دوغلی اقسام پیدا کرنا
  • حیاتیاتی اور غیر حیاتیاتی دباو کے خلاف مزاحمت رکھنے والی اقسام  کی دریافت کرنا
  • جدید پیداواری طریقے متعارف کروانا
  • نئی ترقی دادہ اقسام  کی تشہیر اور جدید پیداواری ٹیکنالوجی کی منتقلی
  • الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے زریعے جدید نئی ٹیکنالوجی کسانوں  تک پہنچانا
  • بریڈر ، پری بیسک، بیسک اور سرٹیفائیڈ بیج کی تیاری