کارہائے نمایاں

  • دنیا بھرمیں دھا ن کی پہلی باسمتی قسم (با سمتی 370) کی دریا فت کے سا تھ ساتھ ادارہ ہذا نےاب تک 32اقسام کااجراء کیا ہےجو عام کاشت کےلئے منطور ہوئی ہیں ۔
  • امسال (2023)  چاول کی تین اقسام  سونا سپر باسمتی (اب تک کا سب سے لمبا چاول یعنی 9.5 ملی میٹر)، وائٹل سپر باسمتی (پہلی باسمتی ملکی قسم جو کہ  فولاد اور زنک کی اضافی خوبیوں کی حامل ہے) اور زیادہ پیداوار دینے والی کورس ورائٹی کے ایس کے 2023 (پیداوری صلاحیت 110من فی ایکڑ) عام کاشت کےلئے منطور ہوئی ہیں ۔۔
  • پہلا ملکی باسمتی ہائیبرڈ(کے ایس کے111 ایچ) مورخہ ۲۸ فروری ۲۰۲۱ ء کو عام کاشت کےلئے منطور ہواہے ۔
  • دھان کی فائن اقسام کی فی ایکڑ پیداواری صلاحیت میں 30 من(باسمتی 370)کی بجائے115من(کے ایس کے111 ایچ) جبکہ کورس اقسام میں 100من(آئی آر 6)کی بجائے110 من(کے ایس کے 2023 )کےاضافہ کی وجہ سے کسانوں کی سماجی ومعاشی بہتری کیساتھ ساتھ ملکی برآمدات میں اضافہ کیوجہ سے زرمبادلہ میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
  • جلد پک کر تیار ہونے وا لی اقسام کی تیاری کے حوالے سے فائن اقسام130دن (باسمتی 198)کی بجائے 94دن (کسان باسمتی)جبکہ کورس اقسام کا 111 دن(کے ایس کے 434) کی بجائے100دنوں(کے ایس 282) میں پکنے کیوجہ سے فصلو ں کے ہیر پھیرمیں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ گندم میں ملکی خودکفالت کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکا اور اس طرح فصلوں کے تنوع کے حوالہ سے پائیدارزرعی ترقی کی مزید راہیں کھلی ہیں۔
  • برداشت سے پہلے پکی فصل کو گرنے سے بچانے کیلئے پست قد کی حامل اقسام تیار کی گئی ہےجسکی وجہ سے فائن اقسام کے قدمیں 170(باسمتی 370) سے98سینٹی میٹر (کسان باسمتی)جبکہ کورس اقسام میں115(کے ایس 282) سے 105سینٹی میٹر(آئی آر6)تک کمی کی گئی ہے۔
  • مارکیٹ کی ضرورتوں کو مد نظررکھتے ہوئے چاول کی عمدہ معیار رکھنے والی اقسام کی تیاری کی وجہ سے اب تک فائن اقسام کے دانے کی لمبائی 6.50ملی میٹر(باسمتی 198) سے9.50ملی میٹر (سونا سپر باسمتی) جبکہ کورس اقسام میں6.69ملی میٹر (آئی آر 6) سے 7.07ملی میٹر (کے ایس کے133) تک بہتری لائی گئی ہے۔
  • چاول کی مختلف اقسام کی خصوصیات مِلنگ ریکوری پرا ثرا نداز ہوتی ہیں۔ ان اثرا ت سے بچنے کیلئے چاول کی مختلف اقسام و نئی لائنوں کے لیے سیلا چاول ٹیکنالوجی اقسام کیمطا بق مرتب کی گئی ہے۔
  • تجربات کی روشنی میں پیداوار متاثر کئے بغیرکدو کے لئے 30 سے 40 دن کے لئے درکار پانی کو اب3 تا 4 دن تک محدود کیا گیا ہے او راسی طر ح لاب کی منتقلی کے بعد 3انچ پانی 30 تا 40 دن کی بجائے1تا 1.5انچ پانی 21دن کے لئے مناسب ہے۔
  • دھان کی بیج سے براہ راست کاشت بذریعہ چھٹہ کی کامیابی کے بعد بزریعہ ڈرل کھیت میں پودوں کی مطلوبہ تعدادنہ صرف پوری کرنا انتہائی آسان ہو گیاہے بلکہ اس سے پودوں کی مطلوبہ تعداد پوری ہونے کی وجہ سے پیداوار میں عام کاشت کی نسبت چارتا چھ من فی ایکڑ اضافہ کے ساتھ ساتھ لیبرو پانی کے اخراجات میں بھی کمی آئی ہے ۔
  • 2009 ء میں ایک پرائیویٹ فرم کوچاول کی ڈرل بارے تکنیکی معاونت فراہم کی گئی جسکےنتیجہ میں 2015ء میں پبلک پرائیویٹ پارٹرنرشپ کے تحت چاول کی پہلی ڈرل متعارف کروا دی گئی۔2017ء میں اس ڈرل میں مزید بہتری لائی گئی جسکے نتیجے میں یہ ڈرل اب 4تا 5 انچ کے فاصلے پر بھی بیج گراتی ہے۔
  • لاب کی مشینی منتقلی کے زریعے نا صرف مزدوروں کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ لاب کی بروقت منتقلی،  دھان کے مطلوبہ پودوں کی تعداد(80ہزار فی ایکڑ)کا حصول، تھوڑے وقت میں زیا دہ رقبہ پردھان کی کاشت کا حصول ممکن ہوجاتا ہے اوراس سے ایک دن میں 6 تا 8  ایکڑاراضی پر لاب کی منتقل کی جا سکتی ہے۔ لاب کی مشینی منتقلی کے سلسلے میں ادارہ کی ایڈ وائزری سروسسز کی بدولت ا ب پرائیویٹ سیکٹر کے آنے کیوجہ سے دھان کا مشینی منتقلی کا رقبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
  • دھان کی جلد پک کرتیار ہونے والی اقسام کی وجہ سے چاول کے بعد گندم کی کاشت ممکن ہو ئی جس سے ناصرف کاشتکاروں کی سماجی و معاشی حالت میں بہتری آئی بلکہ دھان کے مڈھوں کے خاتمے کی وجہ سے تنے کی سنڈیاں (سفید اور زرد سنڈی) جو اپنی سرمائی نیند مڈھوں میں سوتی تھیں کا بھی روائتی علاقو ں میں کا فی حدتک قلع قمع ہو گیا ہے۔
  • کسانوں کے فی ایکڑ اخراجات میں کمی اورپھپھوندی کش زہروں و کیمیکلزکی باقیات کے بغیردھان کی پیداوارکیلئے دھان کی موجودہ (سپر گولڈ)اورمسٹقبل میں آنے والی اقسام میں جرا ثیمی جھلساوکیخلاف قوت  مدافعت رکھنے والے جینزکی منتقلی کی گئی ہے۔
  • ضرر رساں کیڑوں،بیماریوں اور جڑی بوٹیوں کیخلاف مربوط طریقہ تحفط کی سفارشات کی وجہ سے زرعی زہروں کے بے جا استعمال اور انکی باقیات کے بغیردھان کی پیداوار کا حصول ممکن ہواہے۔
  • نائٹروجنی کھادوں کا تین اقساط میں استعمال (پہلی زمین کی تیاری کے وقت، دوسری لاب کی منتقلی کے 30سے 35دن بعد اور تیسری 45 سے55دن بعد) سے پودے کو اسکی ضرورت کے وقت نائٹروجن کی دستیابی سے پیداوا رمیں بہتری آئی ہے۔اسی طرح پوٹاش، ٖفاسفورس، زنک اور بوران کے استعمال سے کسان کے منافع میں اضافہ ممکن ہوا ہے۔
  • دھان کی کٹائی کے لئے رائس کمبائن ہارویسٹرکے استعمال سے دھان کے مڈھوں اور باقیات کی سنبھال کا مسئلہ نہیں بنتا لیکن فصل کی برداشت بذریعہ کبائین ہارویسٹر کرنے کے بعد کھیت میں فصل کی باقیات (ناڑ/پْرول) بچ جاتی ہے جسکو کاشتکار آگ لگا دیتے ہیں تا کہ اگلی فصل کی کاشت بروقت ممکن ہو سکے۔ ادارہ ہذا کے ماہرین  نے ایک نجی فرم کوسٹرا چاپر کے حوالے سے تکنیکی معاونت فر اہم کی جسنے تجویزکردہ ضروری تبدیلیوں کے بعد اس مشین کو حتمی شکل دی۔ فصل کی کٹائی کمبائین ہارویسٹر سے کرنے کیبعدسڑاچاپربذریعہ ٹریکٹرچلانے  سےباقیات 2تا3انچ کے چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں کتری جاتی ہیں ۔ بعد ازاں ڈسک ہل اور روٹا ویٹر چلا کر ان کتری  ہوئی باقیات کو زمین میں مکس کرنے کے بعدکھیت میں آدھی بوری نائٹرجن کی ڈال کر پانی لگادینے سے یہ باقیات گل سڑکر زمین کا حصہ بن جاتی ہیں۔
  • تجربا ت کی روشنی میں زیروٹیلج ہیپی سیڈر مشین کے ذریعے کاشت ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں زمین میں ہل اور زمین کی تیاری کیے بغیر دھان کے مڈھوں (باقیات) میں ہی اگلی فصل کاشت کردی جاتی ہے۔ اس طرح زمین پر باقیات(ناڑ/پْرول) کی ایک تہہ بن جاتی ہے جو زمین میں موجود نمی کو دیر تک بر قرار رکھتی ے اس طرح آبپاشی کے لیے کم پانی درکار ہوتا ہے۔ اس مشین سے بجائی کے لیے زمین کی تیاری نہیں کرنا پڑتی اورڈیزل کم استعمال ہوتا ہے جس سے پیداواری لاگت اور فضائی آلودگی (سموگ) میں کمی آتی ہے۔
  • چاول کا پاوڈرعموماً مر غبا نی کی صنعت میں استعمال کیا جاتا ہے حالا نکہ اس میں 15سے 20فیصد انتہائی اہمیت کا حا مل خوردنی تیل ہوتا ہے جو امراض دل کے مریضوں کیلئے یکساں مفید ہو تا ہے۔  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاوڈر خراب ہو نے کے باعث تیل کا حصول ممکن نہیں رہتا  لہذا  پاوڈر کو خراب ہو نے سے بچانے کے لئے مختلف طر یقے وضع کئے گئے۔
  • تحقیقاتی ثمرات کےنتیجہ میں پاکستان بننے (1947)سےلیکر اب تک کاشتہ رقبہ،  مجمو عی پیداوار اور فی ایکڑ پیداوارمیں بالترتیب  578، 1423  اور 124 فیصد اضا فہ ہو چکا ہے۔ اسی لئے چاول کپاس کے بعدملک کی دوسری اہم نقد آور فصل ہے۔
  • چاو ل کی بین الاقوامی تجارت میں پاکستان کا حصہ 9.10 فیصد ہے اسی لئے گذشتہ کئی بر سوں سے چاول کی برآمدات سے ملکی زرمبادلہ میں2ارب امریکی ڈ الر سالانہ کا اضافہ ہوتا ہے۔
  • چاول کی فی کس دستیابی میں4سے40کلوگرام تک کا اضافہ ہو گیا ہے۔
  • پنجا ب کی معا شی ترقی میں ادارہ ہذا کی پید ا کر د ہ اقسام میں سے ایک قسم (سپر با سمتی)کاسالانہ حصہ20 سے30 ارب روپے تک نوٹ کیا گیا  ہے۔
  • دھان کے کاشتکاروں واسکے کاروبا رسے منسلک اورمحکمہ جاتی افرادی قوت کی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے۔
  • کسان حضرات دھان کی سفارش کردہ جدیدپیداواری ٹیکنالوجی پر عمل درآمد کرتے ہوئے دھان کی اقسام کی پیداواری صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اسکی مثال منیر احمد،  ضلع قصور کی ہےجنہوں نے2017کے دوران پنجاب بھرمیں منعقدہ پیداواری مقابلہ میں 71.34 من فی ایکڑپیداوار حاصل کر کے پہلی پوزیشن حا صل کی۔