کارہائے نمایاں

  •  اس ادارے نے ٹشو کلچرنگ کے ذریعے پیدا شدہ جینیاتی تغیر سے گندم کی ایک اہم قسم افق- 2002دی ہے۔ یہ قسم پورے پنجاب کے نہری اور بارانی علاقوں میں کاشت کے لیے منظور ہوئی۔
  •  اس ادارے نے گنے کے تحقیقی ادارے کے اشتراک سے ٹشو کلچر سے تیار شدہ ایک اہم قسم ایچ ایس ایف 242 بنائی ہے۔ یہ ورائٹی 2007 میں رتہ روگ بیماری کے خلاف مدافعت کے لیے عام کاشت کے لیے منظور کی گئی۔
  •  اس ادارے نے ڈی این اے مارکرز کے ذریعے انفرادی خصوصیات رکھنے والی چاول کی71 ،گندم کی 60،گنے کی95  اورچری کی 48 اقسام کی کھوج کی اور نتائج ان فصلوں کی تحقیق میں مصروف عمل اداروں کو منتقل کئے۔ گندم کی نئی اقسام کے افزائشی وقت کو کم کرنے کے لیے اس ادارے نے 2290 ڈبل ہیپلائیڈ پودے تیار کیے اور گندم کی نئی اقسام بنانے کے لیے گندم کے تحقیقی ادارے کو منتقل کیے۔ ادارے کی جی ایم او لیباٹری کی ISO-17025 پر تصدیق کی منظوری ہوچکی ہے اس کامیابی کی وجہ سے ہماری لیباٹری کے نتائج کی صداقت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ عالمی معیار کے عین مطابق ہوگئے ہیں۔
  •  باسمتی چاول میں جراثیمی جھلساؤ کے خلاف مدافعت کی کھوج کا عمل مکمل کیا جاچکا ہے۔ متصل ڈی این اے مارکرز کے ذریعے چاول کے4452 سیمپلز کو جراثیمی جھلساؤکی مدافعت رکھنے والے جینیاتی عناصر(Xa4, Xa5, Xa7, Xa13, Xa21)کی موجودگی کے لیے جانچا جا چکا ہے اور نتائج چاول کے تحقیقی اداروں کو منتقل کیے جا چکے ہیں۔
  •  ہر سال گندم کے مختلف تحقیقی اداروں سے بھیجی ہوئی اقسام کو گندم کی کنگی کی مدافعت کے لیے ڈی این اے مارکرز کی مدد سے جانا جاتا ہے اور کنگی کی مختلف اقسام کے خلاف مدافعت رکھنے والے جینز کو گندم کی اقسام میں اکٹھا کیا جاتا ہے۔
  •  کپاس کے کیڑوں کے خلاف مدافعت کے جینز Cry1Ac اور Cry2Ab کو مصنوعی طریقوں سے تیار کرکے عالمی جین بینک میںKx622798اور Kx622797کے نمبروں سے جمع کروایا جاچکا ہے۔ان مصنوعی جینز کو جانچ کے لیے مثالی پودے تمباکو میں منتقل کیا جا چکا ہے۔
  •  گزشتہ دس سالوں میں پرائیویٹ اور گورنمنٹ اداروں کی طرف سے موصول شدہ 1000 کپاس، چاول ،مکئی اور سرسوں کے سیمپلز کو پی سی آر اور ELISAکے ذریعے جانچا جا چکا ہے۔
  •  بارانی تحقیقاتی ادارے چکوال کو خدمات کی فراہمی کے سلسلہ میں زیتون کی اقسام کے ڈی این اے فنگر پرنٹ تیار کر کے منتقل کیے جا چکے ہیں جن کی مدد سے زیتون کے تصدیق شدہ پودوں کی نرسریاں تیار کی جارہی ہیں۔
  •  بارانی تحقیقاتی ادارہ چکوال کو مدد فراہم کرنے کے لیے مونگ پھلی کے پتوں پرآخری جھلساؤکی بیماری کے خلاف مدافعت جانچنے والے ڈی این اے مارکرز تیار کیے گئے ہیں ان مارکرز کی مدد سے ادارہ اب اس بیماری کے خلاف مدافعت رکھنے والی نئی اقسام تیار کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔
  •  باسمتی چاول کو ڈی این اے کی سطح پر پحچاننے والے طریقے کی ایجاد کی گئی ہے اور یہ خدمات چاول کے تحقیقاتی ادارے کالا شاہ کاکو  کوفراہم کی جاچکی ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی چاول اب یورپی ممالک کو آسانی سے برآمد کیا جا سکتا ہے۔ مختلف فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے جراثیمی ٹیکوں والے 35026 پیکٹ پچھلے پانچ سالوں میں کسانوں کو سستے داموں فراہم کیے گئے ان رائزوبیا جراثیموں کے ذریعے فصلوں کی پیداوار میں 5 سے 35 فیصد اضافہ ممکن ہوا ہے۔